یہ عرش اے مولا ترے جلووں سے سجا ہے
ان چاند ستاروں میں ترا نور بھرا ہے
پھولوں کی قباؤں پہ ہے تیری ہی نگارش
تتلی کے پروں کو ترے ہاتھوں نے رچا ہے
گلشن کی کیاری تیری خوشبو سے بھری ہے
غنچوں کی بناوٹ میں ترا نقش چھپا ہے
انگڑائیاں لیتی ہیں فقط تیری بدولت
جو سوئے فلک چھائی ہوئی کالی گھٹا ہے
جو چاہے کھلی آنکھ سے پڑھ لے اسے مولا
افلاک کی تختی پہ ترا نام لکھا ہے
آسماں تیرا ہے یہ شمس و قمر تیرے ہیں
یہ افق نور شفق، شام Ùˆ سØ+ر تیرے ہیں
آتے جاتے ہوے یہ شادی و غم کے موسم
ان کے معمول میں جو بھی ہیں اثر تیرے ہیں
سائباں بن Ú©Û’ Ú©Ú¾Ú‘ÛŒ ہے تیری رØ+مت ہر سو
مجھ پہ جو سایہ فگن ہیں وہ شجر تیرے ہیں
تو Ù†Û’ ہی بخشی ہے یہ فطرت Ø+ساس مجھے
ہیں جو اس دل کے صدف میں وہ گہر تیرے ہیں
تیرے بخشے ہوئے جلوے ہیں خدایا مجھ میں
میرے اندر جو نمایاں ہیں ہنر تیرے ہیں
ہے جو ہستی میں میری روØ+ امانت ہے تری
دل کے اندر سبھی آباد نگر تیرے ہیں

__________________